(۱) اسلام کي ان قطعي و متواتر احاديث ميں سے ہے جسے علمائے اسلام نے پيغمبر اسلام (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) سے نقل کيا ہے۔ مختلف زمانوں اور صديوں ميں اس حديث کے متعدد اور قابل اعتماد اسناد پيغمبر اسلام (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي حديث کو قطعي ثابت کرتے ہيں اور کوئي بھي صحيح فکر اور صحيح مزاج والا شخص اس کي صحت و استواري ميں شک نہيں کر سکتا۔
علمائے اہل سنت کے نقطہ نظر سے اس حديث کا جائزہ لينے سے پہلے ہم ان سے بعض افراد کي گواہي يہاں نقل کرتے ہيں:
"منادي" کے بقول: يہ حديث ايک سو بيس (٢) سے زيادہ صحابيوں نے پيغمبر اسلام (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) سے نقل کي ہے(۳)۔
ابن حجر عسقلاني کے بقول: حديث ثقلين بيس (۴) سے زيادہ طريقوں سے نقل ہوئي ہے(۵)۔
عظيم شيعہ عالم علامہ مير حامد حسين مرحوم،جن کا انتقال ۱۳۰۶ء ہ ميں ہوا ہے،انھوں نے مذکورہ حديث کو علمائے اہل سنت کي ۵۰٢ کتابوں سے نقل کيا ہے۔ حديث کي سند اور دلالت سے متعلق ان کي تحقيق چھ جلدوں ميں اصفہان سے شائع ہو چکي ہے، شائقين اس کتاب کے ذريعہ اس حديث کي عظمت سے آگاہ ہو سکتے ہيں۔
اگر ہم اہل سنت کے مذکورہ راويوں پر شيعہ راويوں کا اضافہ کرديں تو حديث ثقلين معتبر اور متواتر ہونے کے اعتبار سے اعليٰ درجہ پر نظر آتي ہے،جس کے اعتبار کا مقابلہ حديث غدير کے علاوہ کسي اور حديث سے نہيں کيا جا سکتا۔ حديث ثقلين کا متن يہ ہے: "اني تارک فيکم الثقلين کتاب اللہ و عترتي اھل بيتي ماان تمسکتم بھما لن تضلوا ابدا ولن يفترقا حتيٰ يردا علي الحوض"۔"ميں تمہارے درميان دو گرانقدر امانتيں چھوڑے جا رہا ہوں،ايک اللہ کي کتاب اور دوسرے ميري عترت و اہل بيت(ع) ہيں، جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے يہ دونوں کبھي ايک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے،يہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پہ پہنچ جائيں"۔
البتہ يہ حديث اس سے بھي وسيع انداز ميں نقل ہوئي ہے، حتي ابن حجر نے لکھا ہے کہ: پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) نے اس حديث کے آخر ميں اضافہ فرمايا: "ھٰذا علي مع القرآن و القرآن مع علي لا يفترقان"(۶)۔ يعني "يہ علي ہميشہ قرآن کے ساتھ ہيں اور قرآن علي کے ہمراہ ہے، يہ دونوں ايک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے"۔
مذکورہ بالا روايت حديث کي وہ مختصر صورت ہے جسے اسلامي محدثوں نے نقل کيا ہے اور اس کي صحت پر گواہي دي ہے۔ ليکن حديث کي صورت ميں اختلاف کي وجہ يہ ہے کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) نے مختلف موقعوں پر الگ الگ تعبيروں ميں لوگوں کو قرآن و اہل بيت (ع) کے اٹوٹ رشتہ سے آگاہ کيا ہے۔ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں حجتوں کے ربط کو حجة الوداع کے موقع پر غدير خم(۷) ميں، منبر پر(۸)، اور بستر بيماري پر(۹) جب کہ آپ کا حجرہ اصحاب سے بھرا ہوا تھا،بيان کيا تھا۔ اور اجمال و تفصيل کے لحاظ سے حديث کے اختلاف کي وجہ يہ ہے کہ آنحضرت نے اسے مختلف تعبيروں سے بيان کيا ہے۔
اگر چہ حديث مختلف صورتوں سے نقل ہوئي ہے اور پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) نے اپني دو يادگاروں کو کبھي "ثقلين" کبھي "خليفتين" اور کبھي "امرين" کے الفاظ سے ياد کيا ہے ، اس کے باوجود سب کا مقصد ايک ہے، اور وہ ہے قرآن کريم اور پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي عترت و اہل بيت (ع) کے درميان اٹوٹ رابطہ کا ذکر۔
حديث ثقلين کا مفاد:
حديث ثقلين کے مفاد پر غور کرنے سے يہ بات معلوم ہوتي ہے کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي عترت و اہل بيت (ع) گناہ، خطا ولغزش سے بھي محفوظ و معصوم ہيں، کيوں کہ جو چيز صبح قيامت تک قرآن کريم سے اٹوٹ رشتہ و رابطہ رکھتي ہے وہ قرآن کي ہي طرح ( جسے خدا وند عالم نے ہر طرح کي تحريف سے محفوظ رکھا ہے) ہر خطا و لغزش سے محفوظ ہے۔
دوسرے لفظوں ميں يہ جو پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) نے فرمايا کہ اسلامي امت صبح قيامت تک (جب يہ دونوں يادگاريں پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کريں گي) ان دونوں سے وابستہ رہے اور ان دونوں کي اطاعت و پيروي کرے، اس سے يہ بات اچھي سمجھي جا سکتي ہے کہ يہ دونوں الٰہي حجتيں اور پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي يادگاريں، ہميشہ خطا و غلطي سے محفوظ اور ہر طرح کي کجي و انحراف سے دور ہيں۔ کيوں کہ يہ تصور نہيں کيا جا سکتا کہ خدا وند عالم کسي عاصي و گناہگار انسان کي اطاعت ہم پر واجب کرے يا قرآن مجيد جيسي خطا سے پاک کتاب کا کسي خطا کار گروہ سے اٹوٹ رشتہ قرار دے دے ۔قرآن کا ہمسر اور اس کے برابر تنہا وہي گروہ ہو سکتا ہے جو ہر گناہ اور ہر خطا و لغزش سے پاک ہو۔
امامت کے لئے سب سے اہم شرط عصمت يعني گناہ و خطا سے اس کا محفوظ رہنا ہے۔ حديث ثقلين بخوبي اس بات کي گواہ ہے کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي عترت و اہل بيت (ع) قرآن کي طرح ہر عيب و نقص، خطا و گناہ سے پاک ہيں اور چونکہ ان کي پيروي واجب کي گئي ہے لہٰذا انہيں بہر حال گناہ و معصيت سے پاک ہونا چاہئے۔
امير الموٴمنين (ع) کا حديث ثقلين سے استدلال:
کتاب "احتجاج" کے موٴلف احمد بن علي ابن ابيطالب کتاب "سليم بن قيس" سے (جو تابعين ميں ہيں اور حضرت امير المومنين کے عظيم شاگرد ہيں) نقل کرتے ہيں کہ عثمان کي خلافت کے دور ميں مسجد النبي ميں مہاجرين و انصار کا ايک جلسہ ہوا جس ميں ہر شخص اپنے فضائل و کمالات بيان کر رہا تھا۔ اس جلسہ ميں امام علي (ع) بھي موجود تھے ليکن خاموش بيٹھے ہوئے سب کي باتيں سن رہے تھے۔ آخر کار لوگوں نے امام(ع) سے درخواست کي کہ آپ (ع) بھي اپنے بارے ميں کچھ بيان کريں، امام نے ايک تفصيلي خطبہ ارشاد فرمايا جس ميں چند آيات کي تلاوت بھي فرمائي جو آپ کے حق ميں نازل ہوئي تھي،اس کے ساتھ ہي آپ نے ارشاد فرمايا: ميں تمہيں خدا کي قسم ديتا ہوں کيا تم جانتے ہو کہ رسول خدا نے اپني زندگي کے آخري ايام ميں خطبہ ديا تھا اور اس ميں فرمايا تھا:"يا اٴيھا الناس اني تارک فيکم الثقلين کتاب اللہ و عترتي اھل بيتي فتمسکوا بھما لاتضلوا"۔ "اے لوگو! ميں تمہارے درميان دو گرانقدر ميراث چھوڑے جا رہا ہوں اللہ کي کتاب اور ميرے اہل بيت (ع) پس ان دونوں سے وابستہ رہو کہ ہر گز گمراہ نہ ہوگے"(۱۰)۔
مسلم ہے کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي عترت و اہل بيت (ع) سے مراد ان سے وابستہ تمام افراد نہيں ہيں، کيوں کہ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ تمام وابستہ افراد لغزش و گناہ سے پاک و مبرا نہيں تھے بلکہ اس سے مراد وہ معين تعداد ہے جن کي امامت پر شيعہ راسخ عقيدہ رکھتے ہيں۔
دوسرے لفظوں ميں اگر ہم حديث ثقلين کے مفاد کو قبول کر ليں تو عترت و اہل بيت کے افراد اور ان کے مصداق مخفي نہيں رہ جائيں گے کيوں کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کے فرزندوں يا ان سے وابستہ افراد کے درميان صرف وہي لوگ اس حديث کے مصداق ہو سکتے ہيں جو ہر طرح کي لغزش و خطا سے مبرا و پاک ہيں اور امت کے درميان طہارت، پاکيزگي، اخلاقي فضائل اور وسيع و بيکراں علم کے ذريعہ مسلمانوں ميں مشہور ہيں اور لوگ انہيں نام و نشان کے ساتھ پہچانتے ہيں۔
ايک نکتہ کي ياد دہاني:
اس مشہور اور متفق عليہ حديث يعني حديث ثقلين کا متن بيان ہو چکا اور ہم نے ديکھا کہ
پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) نے ہر جگہ "کتاب و عترت" کو اپني دو ياد گار کے عنوان سے ياد کيا ہے اور ان دو الٰہي حجتوں کے باہم اٹوٹ رشتہ کو ذکر کيا ہے ليکن سنت کي بعض کتابوں ميں کہيں کہيں ندرت کے ساتھ "کتاب اللہ و عترتي" کے بجائے "کتاب اللہ و سنتي" ذکر ہوا ہے اور ايک غير معتبر روايت کي شکل ميں نقل ہوا ہے۔
ابن حجر عسقلاني نے اپني کتاب ميں حديث کي دوسري صورت بھي نقل کي ہے اور اس کي توجيہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: در حقيقت سنت پيغمبر اکرم(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) جو قرآني آيات کي مفسر ہے اس کي بازگشت خود کتاب خدا کي طرف ہے اور دونوں کي پيروي لازم و واجب ہے۔
ہميں اس وقت اس سے سرو کار نہيں کہ يہ توجيہ درست ہے يا نہيں۔ جو بات اہم ہے يہ ہے کہ حديث ثقلين جسے عام طور سے اسلامي محدثوں نے نقل کيا ہے وہ وہي "کتاب اللہ و عترتي" ہے اور اگر جملہ "کتاب اللہ و سنتي" بھي پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) سے صحيح و معتبر سند کے ساتھ نقل ہوئي ہوگي تو وہ ايک دوسري حديث ہوگي جو حديث ثقلين سے کوئي ٹکراؤ نہ رکھے گي۔ جبکہ يہ تعبير احاديث کي کتابوں ميں کسي قابل اعتماد سند کے ساتھ نقل نہيں ہوئي ہے اور جو شہرت و تواتر پہلي بايوں کہا جائے کہ اصل حديث ثقلين کو حاصل ہے وہ اسے حاصل نہيں ہے۔
عترت پيغمبر سفينہٴ نوح کے مانند:
اگر حديث سفينہ کو حديث ثقلين کے ساتھ ضم کرديا جائے تو ان دونوں حديثوں کا مفاد پيغمبر اسلام (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کے اہل بيت (ع) کے لئے فضائل و کمالات کي ايک دنيا کو نماياں کرتا ہے۔
سليم ابن قيس نے لکھا ہے کہ: ميں حج کے زمانہ ميں مکہ ميں موجود تھا، ميں نے ديکھا کہ جناب ابوذر غفاري کعبہ کے حلقہ کو پکڑے ہوئے بلند آواز ميں کہہ رہے ہيں: اے لوگو! جو مجھے پہچانتا ہے وہ پہچانتا ہے اور جو نہيں پہچانتا ميں اسے اپنا تعارف کراتا ہوں۔ ميں جندب بن جنادہ "ابوذر" ہوں۔ اے لوگو! ميں نے پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ: "ان مثل اھل بيتي في امتي کمثل سفينة نوح في قومه من رکبھا نجيٰ ومن ترکھا غرق"۔ "ميرے اہل بيت کي مثال ميري امت ميں جناب نوح کي قوم ميں ان کي کشتي کے مانند ہے کہ جو شخص اس ميں سوار ہوا اس نے نجات پائي اور جس نے اسے ترک کرديا وہ غرق ہوگيا"(۱۱)۔
حديث سفينہ، حديث غدير اور حديث ثقلين کے بعد اسلام کي متواتر حديثوں ميں سے ہے اور محدثين کے درميان عظيم شہرت رکھتي ہے۔
کتاب عبقات الانوار کے مولف علامہ مير حامد حسين مرحوم نے اس حديث کو اہل سنت کے نوے /۹۰ مشہور علماء و محدثين سے نقل کيا ہے۔
حديث سفينہ کا مفاد:
حديث سفينہ جس ميں پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي عترت کو نوح کي کشتي سے تعبير کيا گيا ہے،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اہل بيت(ع) کي پيروي نجات کا سبب اور ان کي مخالفت نابودي کا سبب ہے۔
اب يہ ديکھنا چاہئے کہ کيا صرف حلال و حرام ميں ان کي پيروي کرنا چاہئے اور سياسي و اجتماعي مسائل ميں ان کے ارشاد و ہدايت پر عمل کرنا واجب نہيں ہے يا يہ کہ تمام موارد ميں ان کي پيروي واجب ہے اور ان کے اقوال اور حکم کو بلا استثناء جان و دل سے قبول کرنا ضروري ہے؟
جو لوگ کہتے ہيں کہ اہل بيت (ع) پيغمبر (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي پيروي صرف دين کے احکام اور حلال و حرام سے مربوط ہے وہ کسي دليل کے بغير پيروي کے موضوع کو محدود کرتے ہيں اور اس کي وسعت کو سمجھنے کي کوشش نہيں کرتے جب کہ حديث ميں اس طرح کي کوئي قيد و شرط نہيں ہے۔
لہٰذا حديث سفينہ بھي اس سلسلہ ميں وارد ہونے والي دوسري احاديث کي طرح اسلامي
قيادت و سرپرستي کے لئے اہل بيت (ع) کي لياقت و شائستگي کو ثابت کرتي ہے۔
اس کے علاوہ مذکورہ حديث اہل بيت (ع) کي عصمت و طہارت اور ان کے گناہ و لغزش سے پاک ہونے کي بہترين گواہ ہے، کيونکہ ايک گناہگار و خطا کار بھلا کس طرح دوسروں کو نجات اور گمراہوں کي ہدايت کرسکتا ہے؟!
حضرت امير المومنين (ع) اور ان کے جانشينوں کي ولايت اور امت اسلام کي پيشوائي و رہبري کے لئے ان کي لياقت و شائستگي کے دلائل اس سے کہيں زيادہ ہيں اور اس مختصر مضمون ميں سميٹے نہيں جاسکتے لہٰذا ہم اتنے ہي پر اکتفا کرتے ہيں۔
منابع اور مآخذ:
۱) ثقل، فتح "ق" اور "ث" اس کے معني ہيں کوئي بہت نفيس اور قيمتي امر۔ اور کسرِ "ث" اور جزم "ق" سے مراد کوئي گرانقدر چيز۔ ٢) فيض القدير، ج/۳ ص/۱۴۔ ۳) صواعق محرقہ، عسقلاني، حديث ۱۳۵۔ ۴) ينابيع المودة، ص/۳٢ وص/۴۰۔ ۵) مستدرک، حاکم، ج/۳ ص/۱۰۹ وغيرہ۔ ۶) بحار الانوار، ج/٢٢ص/۷۶ نقل از مجالس مفيد ۔ ۷) الصواعق المحرقہ، ص/۷۵۔ ۸) احتجاج، ج/۱، ص/٢۱۰۔ ۹) احتجاج طبرسي، ص/٢٢۸۔ ۱۰) جزء دوم از جلد دوازدھم، ص/۹۱۴ کے بعد ملاحظہ فرمائيں۔ ۱۱) مستدرک حاکم، ج/۳،ص/۳۴۳؛ کنز العمال، ج/۱،ص/٢۵۰؛ صواعق، ص/۷۵؛ فيض القدير، ج/۴ ،ص/۳۵۶۔علمائے اہل سنت کے نقطہ نظر سے اس حديث کا جائزہ لينے سے پہلے ہم ان سے بعض افراد کي گواہي يہاں نقل کرتے ہيں:"منادي" کے بقول: يہ حديث ايک سو بيس (٢) سے زيادہ صحابيوں نے پيغمبر اسلام (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) سے نقل کي ہے(۳)۔ابن حجر عسقلاني کے بقول: حديث ثقلين بيس (۴) سے زيادہ طريقوں سے نقل ہوئي ہے(۵)۔عظيم شيعہ عالم علامہ مير حامد حسين مرحوم،جن کا انتقال ۱۳۰۶ء ہ ميں ہوا ہے،انھوں نے مذکورہ حديث کو علمائے اہل سنت کي ۵۰٢ کتابوں سے نقل کيا ہے۔ حديث کي سند اور دلالت سے متعلق ان کي تحقيق چھ جلدوں ميں اصفہان سے شائع ہو چکي ہے، شائقين اس کتاب کے ذريعہ اس حديث کي عظمت سے آگاہ ہو سکتے ہيں۔اگر ہم اہل سنت کے مذکورہ راويوں پر شيعہ راويوں کا اضافہ کرديں تو حديث ثقلين معتبر اور متواتر ہونے کے اعتبار سے اعليٰ درجہ پر نظر آتي ہے،جس کے اعتبار کا مقابلہ حديث غدير کے علاوہ کسي اور حديث سے نہيں کيا جا سکتا۔ حديث ثقلين کا متن يہ ہے: "اني تارک فيکم الثقلين کتاب اللہ و عترتي اھل بيتي ماان تمسکتم بھما لن تضلوا ابدا ولن يفترقا حتيٰ يردا علي الحوض"۔"ميں تمہارے درميان دو گرانقدر امانتيں چھوڑے جا رہا ہوں،ايک اللہ کي کتاب اور دوسرے ميري عترت و اہل بيت(ع) ہيں، جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے يہ دونوں کبھي ايک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے،يہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پہ پہنچ جائيں"۔ البتہ يہ حديث اس سے بھي وسيع انداز ميں نقل ہوئي ہے، حتي ابن حجر نے لکھا ہے کہ: پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) نے اس حديث کے آخر ميں اضافہ فرمايا: "ھٰذا علي مع القرآن و القرآن مع علي لا يفترقان"(۶)۔ يعني "يہ علي ہميشہ قرآن کے ساتھ ہيں اور قرآن علي کے ہمراہ ہے، يہ دونوں ايک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے"۔مذکورہ بالا روايت حديث کي وہ مختصر صورت ہے جسے اسلامي محدثوں نے نقل کيا ہے اور اس کي صحت پر گواہي دي ہے۔ ليکن حديث کي صورت ميں اختلاف کي وجہ يہ ہے کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) نے مختلف موقعوں پر الگ الگ تعبيروں ميں لوگوں کو قرآن و اہل بيت (ع) کے اٹوٹ رشتہ سے آگاہ کيا ہے۔ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں حجتوں کے ربط کو حجة الوداع کے موقع پر غدير خم(۷) ميں، منبر پر(۸)، اور بستر بيماري پر(۹) جب کہ آپ کا حجرہ اصحاب سے بھرا ہوا تھا،بيان کيا تھا۔ اور اجمال و تفصيل کے لحاظ سے حديث کے اختلاف کي وجہ يہ ہے کہ آنحضرت نے اسے مختلف تعبيروں سے بيان کيا ہے۔اگر چہ حديث مختلف صورتوں سے نقل ہوئي ہے اور پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) نے اپني دو يادگاروں کو کبھي "ثقلين" کبھي "خليفتين" اور کبھي "امرين" کے الفاظ سے ياد کيا ہے ، اس کے باوجود سب کا مقصد ايک ہے، اور وہ ہے قرآن کريم اور پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي عترت و اہل بيت (ع) کے درميان اٹوٹ رابطہ کا ذکر۔حديث ثقلين کا مفاد:حديث ثقلين کے مفاد پر غور کرنے سے يہ بات معلوم ہوتي ہے کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي عترت و اہل بيت (ع) گناہ، خطا ولغزش سے بھي محفوظ و معصوم ہيں، کيوں کہ جو چيز صبح قيامت تک قرآن کريم سے اٹوٹ رشتہ و رابطہ رکھتي ہے وہ قرآن کي ہي طرح ( جسے خدا وند عالم نے ہر طرح کي تحريف سے محفوظ رکھا ہے) ہر خطا و لغزش سے محفوظ ہے۔دوسرے لفظوں ميں يہ جو پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) نے فرمايا کہ اسلامي امت صبح قيامت تک (جب يہ دونوں يادگاريں پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کريں گي) ان دونوں سے وابستہ رہے اور ان دونوں کي اطاعت و پيروي کرے، اس سے يہ بات اچھي سمجھي جا سکتي ہے کہ يہ دونوں الٰہي حجتيں اور پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي يادگاريں، ہميشہ خطا و غلطي سے محفوظ اور ہر طرح کي کجي و انحراف سے دور ہيں۔ کيوں کہ يہ تصور نہيں کيا جا سکتا کہ خدا وند عالم کسي عاصي و گناہگار انسان کي اطاعت ہم پر واجب کرے يا قرآن مجيد جيسي خطا سے پاک کتاب کا کسي خطا کار گروہ سے اٹوٹ رشتہ قرار دے دے ۔قرآن کا ہمسر اور اس کے برابر تنہا وہي گروہ ہو سکتا ہے جو ہر گناہ اور ہر خطا و لغزش سے پاک ہو۔امامت کے لئے سب سے اہم شرط عصمت يعني گناہ و خطا سے اس کا محفوظ رہنا ہے۔ حديث ثقلين بخوبي اس بات کي گواہ ہے کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي عترت و اہل بيت (ع) قرآن کي طرح ہر عيب و نقص، خطا و گناہ سے پاک ہيں اور چونکہ ان کي پيروي واجب کي گئي ہے لہٰذا انہيں بہر حال گناہ و معصيت سے پاک ہونا چاہئے۔امير الموٴمنين (ع) کا حديث ثقلين سے استدلال:کتاب "احتجاج" کے موٴلف احمد بن علي ابن ابيطالب کتاب "سليم بن قيس" سے (جو تابعين ميں ہيں اور حضرت امير المومنين کے عظيم شاگرد ہيں) نقل کرتے ہيں کہ عثمان کي خلافت کے دور ميں مسجد النبي ميں مہاجرين و انصار کا ايک جلسہ ہوا جس ميں ہر شخص اپنے فضائل و کمالات بيان کر رہا تھا۔ اس جلسہ ميں امام علي (ع) بھي موجود تھے ليکن خاموش بيٹھے ہوئے سب کي باتيں سن رہے تھے۔ آخر کار لوگوں نے امام(ع) سے درخواست کي کہ آپ (ع) بھي اپنے بارے ميں کچھ بيان کريں، امام نے ايک تفصيلي خطبہ ارشاد فرمايا جس ميں چند آيات کي تلاوت بھي فرمائي جو آپ کے حق ميں نازل ہوئي تھي،اس کے ساتھ ہي آپ نے ارشاد فرمايا: ميں تمہيں خدا کي قسم ديتا ہوں کيا تم جانتے ہو کہ رسول خدا نے اپني زندگي کے آخري ايام ميں خطبہ ديا تھا اور اس ميں فرمايا تھا:"يا اٴيھا الناس اني تارک فيکم الثقلين کتاب اللہ و عترتي اھل بيتي فتمسکوا بھما لاتضلوا"۔ "اے لوگو! ميں تمہارے درميان دو گرانقدر ميراث چھوڑے جا رہا ہوں اللہ کي کتاب اور ميرے اہل بيت (ع) پس ان دونوں سے وابستہ رہو کہ ہر گز گمراہ نہ ہوگے"(۱۰)۔مسلم ہے کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي عترت و اہل بيت (ع) سے مراد ان سے وابستہ تمام افراد نہيں ہيں، کيوں کہ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ تمام وابستہ افراد لغزش و گناہ سے پاک و مبرا نہيں تھے بلکہ اس سے مراد وہ معين تعداد ہے جن کي امامت پر شيعہ راسخ عقيدہ رکھتے ہيں۔دوسرے لفظوں ميں اگر ہم حديث ثقلين کے مفاد کو قبول کر ليں تو عترت و اہل بيت کے افراد اور ان کے مصداق مخفي نہيں رہ جائيں گے کيوں کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کے فرزندوں يا ان سے وابستہ افراد کے درميان صرف وہي لوگ اس حديث کے مصداق ہو سکتے ہيں جو ہر طرح کي لغزش و خطا سے مبرا و پاک ہيں اور امت کے درميان طہارت، پاکيزگي، اخلاقي فضائل اور وسيع و بيکراں علم کے ذريعہ مسلمانوں ميں مشہور ہيں اور لوگ انہيں نام و نشان کے ساتھ پہچانتے ہيں۔ايک نکتہ کي ياد دہاني:اس مشہور اور متفق عليہ حديث يعني حديث ثقلين کا متن بيان ہو چکا اور ہم نے ديکھا کہپيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) نے ہر جگہ "کتاب و عترت" کو اپني دو ياد گار کے عنوان سے ياد کيا ہے اور ان دو الٰہي حجتوں کے باہم اٹوٹ رشتہ کو ذکر کيا ہے ليکن سنت کي بعض کتابوں ميں کہيں کہيں ندرت کے ساتھ "کتاب اللہ و عترتي" کے بجائے "کتاب اللہ و سنتي" ذکر ہوا ہے اور ايک غير معتبر روايت کي شکل ميں نقل ہوا ہے۔ابن حجر عسقلاني نے اپني کتاب ميں حديث کي دوسري صورت بھي نقل کي ہے اور اس کي توجيہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: در حقيقت سنت پيغمبر اکرم(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) جو قرآني آيات کي مفسر ہے اس کي بازگشت خود کتاب خدا کي طرف ہے اور دونوں کي پيروي لازم و واجب ہے۔ہميں اس وقت اس سے سرو کار نہيں کہ يہ توجيہ درست ہے يا نہيں۔ جو بات اہم ہے يہ ہے کہ حديث ثقلين جسے عام طور سے اسلامي محدثوں نے نقل کيا ہے وہ وہي "کتاب اللہ و عترتي" ہے اور اگر جملہ "کتاب اللہ و سنتي" بھي پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) سے صحيح و معتبر سند کے ساتھ نقل ہوئي ہوگي تو وہ ايک دوسري حديث ہوگي جو حديث ثقلين سے کوئي ٹکراؤ نہ رکھے گي۔ جبکہ يہ تعبير احاديث کي کتابوں ميں کسي قابل اعتماد سند کے ساتھ نقل نہيں ہوئي ہے اور جو شہرت و تواتر پہلي بايوں کہا جائے کہ اصل حديث ثقلين کو حاصل ہے وہ اسے حاصل نہيں ہے۔عترت پيغمبر سفينہٴ نوح کے مانند:اگر حديث سفينہ کو حديث ثقلين کے ساتھ ضم کرديا جائے تو ان دونوں حديثوں کا مفاد پيغمبر اسلام (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کے اہل بيت (ع) کے لئے فضائل و کمالات کي ايک دنيا کو نماياں کرتا ہے۔سليم ابن قيس نے لکھا ہے کہ: ميں حج کے زمانہ ميں مکہ ميں موجود تھا، ميں نے ديکھا کہ جناب ابوذر غفاري کعبہ کے حلقہ کو پکڑے ہوئے بلند آواز ميں کہہ رہے ہيں: اے لوگو! جو مجھے پہچانتا ہے وہ پہچانتا ہے اور جو نہيں پہچانتا ميں اسے اپنا تعارف کراتا ہوں۔ ميں جندب بن جنادہ "ابوذر" ہوں۔ اے لوگو! ميں نے پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ: "ان مثل اھل بيتي في امتي کمثل سفينة نوح في قومه من رکبھا نجيٰ ومن ترکھا غرق"۔ "ميرے اہل بيت کي مثال ميري امت ميں جناب نوح کي قوم ميں ان کي کشتي کے مانند ہے کہ جو شخص اس ميں سوار ہوا اس نے نجات پائي اور جس نے اسے ترک کرديا وہ غرق ہوگيا"(۱۱)۔حديث سفينہ، حديث غدير اور حديث ثقلين کے بعد اسلام کي متواتر حديثوں ميں سے ہے اور محدثين کے درميان عظيم شہرت رکھتي ہے۔کتاب عبقات الانوار کے مولف علامہ مير حامد حسين مرحوم نے اس حديث کو اہل سنت کے نوے /۹۰ مشہور علماء و محدثين سے نقل کيا ہے۔حديث سفينہ کا مفاد:حديث سفينہ جس ميں پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي عترت کو نوح کي کشتي سے تعبير کيا گيا ہے،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اہل بيت(ع) کي پيروي نجات کا سبب اور ان کي مخالفت نابودي کا سبب ہے۔اب يہ ديکھنا چاہئے کہ کيا صرف حلال و حرام ميں ان کي پيروي کرنا چاہئے اور سياسي و اجتماعي مسائل ميں ان کے ارشاد و ہدايت پر عمل کرنا واجب نہيں ہے يا يہ کہ تمام موارد ميں ان کي پيروي واجب ہے اور ان کے اقوال اور حکم کو بلا استثناء جان و دل سے قبول کرنا ضروري ہے؟جو لوگ کہتے ہيں کہ اہل بيت (ع) پيغمبر (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي پيروي صرف دين کے احکام اور حلال و حرام سے مربوط ہے وہ کسي دليل کے بغير پيروي کے موضوع کو محدود کرتے ہيں اور اس کي وسعت کو سمجھنے کي کوشش نہيں کرتے جب کہ حديث ميں اس طرح کي کوئي قيد و شرط نہيں ہے۔لہٰذا حديث سفينہ بھي اس سلسلہ ميں وارد ہونے والي دوسري احاديث کي طرح اسلاميقيادت و سرپرستي کے لئے اہل بيت (ع) کي لياقت و شائستگي کو ثابت کرتي ہے۔اس کے علاوہ مذکورہ حديث اہل بيت (ع) کي عصمت و طہارت اور ان کے گناہ و لغزش سے پاک ہونے کي بہترين گواہ ہے، کيونکہ ايک گناہگار و خطا کار بھلا کس طرح دوسروں کو نجات اور گمراہوں کي ہدايت کرسکتا ہے؟!حضرت امير المومنين (ع) اور ان کے جانشينوں کي ولايت اور امت اسلام کي پيشوائي و رہبري کے لئے ان کي لياقت و شائستگي کے دلائل اس سے کہيں زيادہ ہيں اور اس مختصر مضمون ميں سميٹے نہيں جاسکتے لہٰذا ہم اتنے ہي پر اکتفا کرتے ہيں۔
منابع اور مآخذ:۱) ثقل، فتح "ق" اور "ث" اس کے معني ہيں کوئي بہت نفيس اور قيمتي امر۔ اور کسرِ "ث" اور جزم "ق" سے مراد کوئي گرانقدر چيز۔ ٢) فيض القدير، ج/۳ ص/۱۴۔ ۳) صواعق محرقہ، عسقلاني، حديث ۱۳۵۔ ۴) ينابيع المودة، ص/۳٢ وص/۴۰۔ ۵) مستدرک، حاکم، ج/۳ ص/۱۰۹ وغيرہ۔ ۶) بحار الانوار، ج/٢٢ص/۷۶ نقل از مجالس مفيد ۔ ۷) الصواعق المحرقہ، ص/۷۵۔ ۸) احتجاج، ج/۱، ص/٢۱۰۔ ۹) احتجاج طبرسي، ص/٢٢۸۔ ۱۰) جزء دوم از جلد دوازدھم، ص/۹۱۴ کے بعد ملاحظہ فرمائيں۔ ۱۱) مستدرک حاکم، ج/۳،ص/۳۴۳؛ کنز العمال، ج/۱،ص/٢۵۰؛ صواعق، ص/۷۵؛ فيض القدير، ج/۴ ،ص/۳۵۶۔
No comments:
Post a Comment