Sunday, 16 February 2014

* علامہ مجلسی (رہ) اور نبی و امام (ع) کے حق میں غلو کا بہترین مفہوم *


جاننا چایئے کہ نبی و امام (ع) میں کئی طرح غلو متصور ہو سکتا ہے:
* ان کو خدا قرار دیا جائے. * یا معبود کہا جائے.* خالق و رازق ہونے میں ان کو خدا کا شریک قرار دیا جائے.* یا یہ کہا جائے کہ خدا نے ان کے اندر حلول کیا ہوا ہے اور یہ خدا کے اوتار ہیں.* یا خدا ان کے ساتھ متحد ہو گیا ہے.* یا یہ نظریہ قائم کیا جائے کہ وہ حی و الہام کے بغیر خود بخود علم غیب جانتے ہیں.* یا ان کو انبیاء تسلیم کیا جائے.* یا یہ اعتقاد رکھا جائے کہ ان کی روحیں ایک دوسرے میں منتقل ہوتی رہتی ہیں.* یا یہ کہ ان کی معرفت تمام عبادات الہیہٰٰ سے بے نیاز کر دیتی ہے.* اور جب ان کی معرفت حاصل ہوجائے تو گناہ ترک کرنے کی تکلیف ختم ہو جاتی ہے.
لیکن بعض متکلمین و محدثین نے معرفت آئمہ (ع) اور ان کے غرائب احوال و عجائب شئوں سے قاصر و عاجز ہونے کی وجہ سے غلو کے معاملہ میں افراط سے کام لیا ہے چنانچہ انہوں نے بہت سے ثقہ راویوں میں صرف اس لئے قدح کی کہ انہوں نے ان بزرگواروں کے بعض عجیب معجزات نقل کر دیئے تھے . بعض علماء نے یہاں تک کہہ دیا کہ ان حضرات سے سہو کی نفی کرنا یا ان کو ماکان و مایکون کا عالم ماننا بھی غلو میں داخل ہے.
حالانکہ بہت سے اخبار میں وارد ہے کہ: "ہمیں 'رب' نہ کہو اور جو چاہو کہو .ہرگز ہماری گہرائی تک تمھاری رسائی نہیں ہوسکتی."
یہ بھی وارد ہے کہ: "ہمارا معاملہ بڑا سخت مشکل ہے اسے صرف کوئی نبی مرسل ، ملک مقرب یا بندہ مومن برداشت کر سکتا ہے جس کے ایمان کا خدا ئے رحمن نے امتحان لے لیا ہو."
نیز وارد ہوا کہ: "اگر ابوذر (رہ) کو علم ہو جائے کہ قلب سلمان (رہ) میں کیا ہے تو وہ اسے قتل کر دے." وغیرہ ذلک.
اس لئے ایک مومن متدین کے لئے لازم ہے کہ ان فضائل و معجزات کے متعلق جو روایات وارد ہیں ان کے انکار میں عجلت سے کام نہ لے جب تک کہ ان کا خلاف حق ہونا ضرورت دین ، قطعی یقین ، آیات محکمہ اور روایات متواتر سے ثابت نہ ہوجائے جیسا کہ باب تسلیم وغیرہ میں گزر چکا ہے.
(بحار الانوار // مجلسی // ج 7 // ص 503 // کتاب الامہ باب 10// طبع قم ایران)

No comments:

Post a Comment