** تعارف عالم اجل از علماء متقدمین یعنی حضرت ایت اللہ فی العالمین ابن المعلم ابوعبد اللہ الشيخ المفيد رضوان اللہ تعالی علیہ ** الحمد للہ شیعہ مکتب فکر کی پہچان ہمیشہ علم اور عالم رہے ہیں اور اس مکتب کو یہ فخر و امتیاز حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد اپکی بہترین ال اطہار علیہم السلام کی قیادت حاصل رہی.غیبت صغری میں عظیم ترین علماء یعنی نواب اربعہ کی وساطت سے اس مکتب کو رہنمایی ملی جنہیں امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کے ذریعے درحقیقت خود اللہ عزوجل کی تایید حاصل تہی مشیت الہی کے مطابق جب غیبت کبری شروع ہویی تو اللہ عزوجل نے اپنی بےپایاں رحمت و شفقت سے اس مکتب کو محروم نہ کیا کیونکہ یہ نبی و علی کا مکتب تہا جو کہ اصیل مکتب توحید و رسالت ہے.پس اللہ تبارک و تعالی نے غیبت کبری کی ابتداء سے ہی اپنے لطف و کرم سے یکے بعد دیگرے ایسے علماء اس مکتب کو دیے جنہوں نے عقاید فقہ .تفسیر .اخلاق اور متعدد علوم ظاہری و باطنی میں اپنے کمالات کے جوہر دکہایےاور دنیا پر ثابت کیا کہ علم و عمل کا مرکز فقط محمد و ال محمد علیہم السلام ہیں یا ان کے بعد وہ افراد ہیں جنہوں نے تقوی اختیار کیا اور ال نبی .ص. سے متمسک و مستفید ہویے تو " مفید" کہلایے دوستو ! انہی میں سے ایک اہم ترین عالم دین " ایت اللہ فی العالمین استاذ الفقہاء والسادہ الشیخ مفید رضوان اللہ تعالی علیہ ہیں جنکی علمی و فکری خدمات پر لکہنے کیلیے کتب درکار ہین." شیخ مفید " عربی الاصل تہے انکا مکمل نام " محمد بن محمد بن النعمان بن عبد السلام" ہے. اور تیس واسطوں سے ہوکر اپ کا نسب " يعرب بن قحطان " تک پہنچتا ہے انکی کنیت" أبو عبد الله " تہی .جیسا کہ شیخ طوسی نے بیان کیا ہے (معجم رجال الحديث ج17 ص206 و معجم رجال الحدیث ج 17 ص 202 )اپ کے القابات میں ( العکبری .الحارثی اور الکرخی ) معروف ہیں.اپ " عکبری" نامی گاوں میں پیدا ہویے " " کرخ " میں رہایش پذیر رہے اپ کے معروف القابات میں سے ایک لقب " ابن المعلم" بہی ہے کیونکہ اپ کے والد " واسط" شہر میں بطور استاد مقرر تہے بعدازآں اپ معروف زمانہ لقب " المفيد " سے مشہور ہویے( المفید (رض) لقب کی وجہ تسمیہ) اسکی دو وجہیں بیان کی گئی ہیں کہا جاتا ہے کہ اپ کا معروف اہل سنت عالم " القاضي عبد الجبار " سے مسألہ (روايت و درايت) پر بحث ہویی تہی جس کے بعد اپ کو " مفید " کا لقب ملا اس سے قبل کہ یہ مناظرہ درج کریں ہم یہاں روایت و درایت کی مختصر تشریح کرینگے دوستو ! روایت اس قول کو کہتے ہیں جو نبی اکرم.ص. یا ایمہ معصومین علیہم السلام میں سے کسی ایک سے مروی ہو اس میں قول و فمل و تقریر معصوم تینوں شامل ہیں. اور یہ تنینوں مقام دلیل میں حجیت رکہتے ہین.تقریر معصوم سے مراد یہ ہے کہ معصوم کے سامنے کویی عمل انجام دیا جایے اور وہ اس کی بجا اوری سے منع نہ کریں یا خاموش رہیں پس ایسا عمل بہی درست تصور کیا جاییگا کیونکہ اگر یہ فعل حرام یا ناپسندیدہ ہوتا تو معصوم مقام بیان میں اس سے منع فرمادیتے درایت کسی بہی روایت کی متن و سند کی چہان بین کرکے صحیح کو سقیم و ضعیف سے الگ کرنے کو کہتے ہیںعلماء اصول نے احادیث معصوم کو چار بنیادی اقسام پر تقسیم کیا ہے( صحیح. موثق. حسن. ضعیف. ان میں سے ہر ایک پر کسی اور مرحلے میں بحث کرینگے ) یہاں ایک ضروری بات کہ دوں کہ فن علم الحدیث میں جہاں رجال پر دسترس ضروری ہے وہاں زبان عربی پر بہی عبور ضروری ہے تاکہ متن اور اس کے تقاضوں کو شارع کی مرضی کے مطابق سمجہ سکے پس دوستو ! روایت اور درایت پر بحث کے دوران شیخ مفید نے قاضی سے دریافت کیا اپ اس روایت کے متعلق کیا کہتے ہین جو شیعوں کی ایک جماعت نبی اکرم سے منسوب کرتی ہے کہ اپ نے روز غدیر فرمایا."من كنت مولاه فعلي مولاه" یعنی جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں " کیا یہ روایت صحیح ہے ؟قاضی نے جواب دیا .بلکل یہ روایت صحیح ہے . تو شیخ نے قاضی سے پوچہا اپ کے نزدیک اس روایت میں مولا سے کیا مراد ہے ؟ قاضی نے جواب دیا یہاں مولا بمعنی اولی (بالتصرف) کے ہیں.یہ سنکر شیخ نے کہا جب اپ کے نزدیک یہ روایت بہی درست ہے اور مولا کے معنی اولی کے ہیں تو پہر شیعوں اور سنیوں میں جہگڑا کس بات کا ہے ؟ تو قاضی نے جواب دیا " بات یہ ہے کہ یہ جو اپ نے پیش کیا یہ روایت ہے جبکہ خلافت ابی بکر درایت(واضح حقیقت ) ہے پس روایت پر درایت کو فوقیت حاصل ہے اور عاقل کبہی درایت پر روایت کو ترجیح نہیں دیتا" یہ سنا تو شیخ مفيد قاضي عبد الجبار سے مخاطب ہویے اور دریافت کیا" ٹہیک ہے پہر یہ بتاییے کہ اس روایت کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں جس میں نبی اکرم .ص. نے علی سے کہا ( "حربك حربي وسلمك سلمي" یعنی تم سے جنگ مجہ سے جنگ ہے اور تم سے صلح مجہ سے صلح ہے ) قاضي نے جواب دیا یہ حديث بہی صحيح ہے یہ سنا تو شیخ نے فورا کہا" پہر اپ کا اصحاب جمل کے متعلق کیا رایے ہے ؟" تو قاضی نے جواب دیا." کیا ہوا اصحاب جمل نے توبہ کیا تہا " تو شیخ نے برجستہ جواب دیا" قاضی محترم اپ ہی کے استدلال کے مطابق جنگ تو درایت ( واضح امر ) سے ثابت ہے جبکہ توبہ روایت ہے اور عاقل روایت کو درایت پر ترجیح نہیں دیا کرتا" یہ سنکر قاضی مبہوت ہوگیا کافی دیر تک سر جہکایے بیٹہا رہا پہر سر اٹہایا اور اپنا عمامہ اتارا اور دریافت کیا تم کون ہو ؟ شیخ نے جواب دیا میں اپ کا خادم" محمد بن محمد بن النعمان الحارثي " ہوں.یہ سنکر قاضی اپنی جگہ سے اٹہا اور شیخ کو اپنی مسند پر بٹہایا اور کہا (انت المفید حقا یعنی تم برحق مفید ہو) دربار میں موجود دیگر علماء کو قاضی کا شیخ مفید سے یہ برتاو اچہا نہیں لگا اور انکے چہروں پر ناگواری کے اثار دیکہے تو قاضی ان سے مخاطب ہوکر کہا " اے عالمو اور فاضل لوگو ! مجہے اس شخص نے لاجواب کردیا اگر تمہارے پاس اسکی دلیل کا کویی توڑ ہے تو لے او" لیکن کسی کے پاس شیخ کی استدلال کا جواب نہیں تہا لہذا سب متفرق ہوگیے یہاں ایک اور روایت بہی موجود ہے جس میں شیخ مفید کو مفید کہنے کی وجہ بیان کی گئی ہے. یعنی بعضوں کے نزدیک اپکی علمی و فکری خدمات اور تقوی کے باعث امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف نے اپ کو ایک خط میں المفید کا لقب دیا تہا اس بارے میں علماء میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ غیبت کبری میں امام علیہ السلام سے اسطرح کی خط و کتابت کی روایت صحیح نہیں ہے بعضے قایل ہیں کہ غیبت کبری میں بہی حضرت حجت علیہ السلام سے رابطہ ممکن ہے اور وہ چاہیں تو ایسا ممکن ہےالسيد الأجل بحر العلوم (رجال السيد بحر العلوم ج3 ص320) اور خاتم المحدثین المحدث النوري رضوان اللہ علیہما نے ان تمام باتوں کا جواب اپنی کتب میں دی ہیں جنکے ذکر سے طوالت کا خدشہ ہےمحدث نوری.رض. فرماتے ہیں" ہم غیبت کبری نیں جواز رویت کے قایل ہیں اور اس بارے میں تفصیل اپنی کتاب (جنة المأوى اور كتاب النجم الثاقب ) میں بیان کرچکے ہیں.اور ہم نے السيد مرتضى اور شيخ الطائفة اور ابن طاووس (رحمهم الله) سے اس بارے میں ان کے اقوال کی تصریح کی ہے ،اور ہم نے کہا ہے کہ فقط " مخصوص رویت " کے متعلق نفی وارد ہے لیکن انحضرت کو غیبت کبری میں دیکہنا امر محال میں سے نہیں ہےالبتہ اس رویت کی بناء پر کسی خاص قسم کی ادعاء مثلا نیابت خاصہ یا دیگر امور جن سے سوء استفادہ ہوتا ہو وہ درست نہیں ہے پس امام علیہ السلام کا شیخ مفید کو " أيها الولي الملهم للحق یعنی اے حق کیلیے الہام شدہ ولی " کے قول پر شبہ کرنے والے ذرا دیکہیں کہ کسطرح شیخ مفید رضوان اللہ علیہ نے غیر مذاہب کیساتہ مناظرے اور ابحاث کے دوران اپنی علمی و فکری و دلایل سے بہرپور باتوں سے اپنے مخالفین کو مبہوت کیا. سلام ہو شیخ جلیل شیخ مفید علیہ الرحمہ پر جب وہ پیدا ہویے اور جب وہ کل زمرہ علماء میں محشور کیے جائیںCourtesy: أبو صلاح الجعفري
No comments:
Post a Comment