Monday, 17 February 2014

** آنسوؤں کی قدر و قیمت اور گریہ بر شہید کرب وبلا کی حقیقت **

چونکہ شب جمعہ اور روز جمعہ کو امام زمان عجل اللہ فرجہ سے خصوصی نسبت حاصل ہے. لہذا بہتر ہے کہ ان بابرکات لمحات میں دعایے کمیل کیبعد زیارت عاشورا اور صبح دعایے ندبہ کیبعد جامعہ یا زیارت امین اللہ پڑہی جاییں
کیونکہ دوستو ! امام زمان صلوات اللہ علیہ کی قربت کا بہترین و مختصر ترین واسان ترین راستہ اور دروازہ انکے جد حسین بن علی .ع. ہیں جنکی مصیبت پر غمزدہ ہونا اور انسو بہانا اں حضرت عجل اللہ فرجہ کے خصوصی قربت کا سبب ہے یہ طے ہے کہ اپکی قربت سے ہی حقیقتا تقرب الہی کا حصول ممکن ہےدوستو اس دوران جب میں زیارت پڑہ چکا میری توجہ کربلا کے مصایب کی جانب چلی گئی . بس پہر ہر عزادار کی طرح میں بہی اپنے ان انسوون کو مظلوم کربلا پر بہنے سے نہ روک پایا جو عزیز قلب فاطمہ الزہراء پر حلقہ چشم سے برامد ہونے کو بیتاب تہے.وارث زمزم و صفا کی جب پیاس یاد ایی تو دل میں ایک درد کی شدید ہوک اٹہی. مجہے لگا کہ میں لاشعور میں محفوظ علم وجدان کی طاقت کے بل بوتے العطش العطش کی مسلسل اوازین سن رہا ہوں ." اے فرات کے ٹہنڈے پانی ! وایے ہو تم پر! تو اپنی روانی و ٹہنڈک کے باوجود میوہ قلب مصطفی ص. کے قلب و جگر کو سیراب نہ کرسکا.اہ میرے انسو میرے رخسار پر تیزی سے بہنے لگے مجہے یوں لگا کہ شاید میرے انسوؤں نے کسی پیاسی زبان کی شدت عطش میں گویا تخفیف کردی ہے یا کچہ زخمی دلوں پر مرہم سا رکہ دیا ہے.مجہے اس لمحے ان انسؤوں پر بیحد پیار ایا لہذا میں نے اسے ایسے ہی مسلسل بہنے دیا. بندوں پر زندگی میں توفیق کے کچہ لمحات ایسے آتے ہیں جن پر پوری زندگی کی جمع پونجی بمع کل زندگی بہی قربان کردی جایے تو بہی کم ہے.دوستو ! انہی عظیم لمحات میں سے ایام عزاء و رمضان المبارک کے دن و رات اور ایام حج و زیارات ہیں جنکا نعم البدل دیگر ایام میں پانا ممکن نہیں ہےبہر حال میرا دل یہ کہتا تہا کہ یہ انسو کسی مصیبت کے دن کے لیے میرے لیے شفیع و گواہ بنیں گے. اس دوران مجہ پر یہ بات کہلی کہ حسین.ع. پر بہایے گیے انسوؤں کا دیگر انسوؤں سے کویی بہی موازنہ نہیں بلکہ یہ یکدم مختلف ہیں.پس میں نے ان میں سے ایک قطرہ انسو کو اپنی انگشت شہادت پر لیا اور اس سے یوں مخاطب ہوا" اے وہ انسو جس نے میرے وجود میں سکون و اطمینان کی لہر دوڑا دی ہے مجہے تیرے اندر ذکر اللہ کی تاثیر وجہلک دکہایی دی ہے اخر اسکی وجہ کیا ہے؟ اور خدا را یہ بہی بتا دے کہ اخر نام حسین.ع. اتے ہی تو حلقہ چشم سے نکلنے کو بیتاب کیوں ہوتا ہے ؟میری بات سنکر انسو بولا" اے طالب محبت محبوب حبیب خدا! میرا مسکن انکہ سے زیادہ دل ہے. میرا نسب شریف اور قصہ طویل ہے. بس اتنا بتادوں کہ جب رحمت خدا کی ہواییں چلنے لگیں اور توفیق خدا بندے کے شہ رگ سے زیادہ قریب تر ہو جایے تو پہر ایسے انسان کا دل نرم کردیا جاتا ہے.دل کے نرم ہوتے ہی اس کے اندر احساس پیدا ہوجاتا ہے. احساس ہمدردی اور شفقت کو جنم دیتی ہے شفقت و ہمدردی کا تعلق انسانیت و شرافت کے اعلی وارفع معیار سے ہے انسانیت و شرافت کے اعلی ترین اقدار و مدارج کانام ہی اسلام ہے.(بعثت لاتمم مکارم الاخلاق )اور سنو ! اسلام اور انسانیت وشرافت کے یہ اقدار و معیارات ایک محسن اعظم کے احسانات کے تلے زیر بار ہیںپس یہ کیسے ممکن ہے کہ کویی اس محسن اعظم کو یاد کرے اور وہ حساس قلب و جگر کا مالک ہونے کے ساتہ شریف و محسن شناس بہی ہو اور اس کے انسو ان پر نہ بہیں ؟" بیشک واللہ ! غم حسین میں نکلے ہویے انسوؤں کے قطرے عشق و محبت کا خلاصہ اور وفا و خلوص کا خزانہ ہیں . یہ اس لایق ہیں کہ اسے مرکز بصیرت و بصارت یعنی دل و انکہ میں پوشیدہ و ظاہر کیا جایے.انسو صالحین و انبیاء کی میراث اور سیرت و سنت ہیں. گریہ شوق و جذبہ و تعلق کی ترجمانی کرتا ہے.خدایا ! میں تیرا کیسے شکر ادا کروں کہ تونے مجہے ان رونے والے صالحین کا وارث بنایا جنہوں نے اس مظلوم پر اپنے انسو بہانے میں کمی نہیں کییا خدایا !!!کیا میں بہی اہل بیت و اصحاب حسین.ع. اور زیور عرش خدا حسین بن فاطمہ .ع. پر رونے والوں میں شمار کیا گیا ہوں؟کیا مخدرات عصمت کے مصایب پر انسو بہاکر میں بہی قلب فاطمہ الزہراء کی تاسی کرونگا ؟؟کیا جلے ہویے خیموں اور شام غریبان کی یاد میں رو کر میں بہی قلب صاحب الزمان.ع. کی تشفی و تسلی کا ساماں بنونگا ؟؟بیشک ان انسوؤں نے میری حیثیت میری اوقات سے بڑہادی اور مجہے بلندیوں سے ہمکنار کیاحسین .ع. پر رونے کیلیے ظاہری رشتے کی نہیں بلکہ صرف اور صرف اقدار شناس و محسن شناس ہونے کی ضرورت ہےاللہ اکبر ! اے ابا عبد اللہ اے کریم ابن کریم! مجہے علم ہے کہ تیری مصیبت پر گریہ کرنا میرا یا کسی کا ذاتی کمال ہرگز نہیں بلکہ یہ سب کچہ بہی تیرے کریم در کے ہی صدقے میں عطا ہوا ہےپس سلام ہو آپ پر اے ابا عبد اللہ ! جب اپ وداع ثانی کے بعد درخیمہ پر ائےپہر یوں سلام اخر کیا" السلام علیک یا زینب و یا ام کلثوم و یا رقیہ ویا سکینہ علیکن منی السلام"" سید ابن طاووس اللہوف" میں لکہتے ہیں مظلوم کربلاء کا سلام اخر سن کر خیموں کے اندر سے بے یار و مددگار ناموس خدا کی گریہ کی اوازیں بلند ہوییں.یہ اوازیں اسقدر بلند تہیں کہ حسین.ع. خیموں کے اندر گیے اور بیبیوں کو تسلی دی اور انہیں ان مصایب پر صبر ورضا کی صورت میں اللہ عزوجل کی جانب سے بہترین اجرو ثواب کا یقین دلایا. پہر توکل بر خدا کی وصیت کیبس میں کہتا ہوںاے علی.ع. کی بیٹی ! اللہ اپ کے ملکوتی قلب کو سہارا عطا کرے . بیشک اب حسین.ع. جانب مقتل چلے ہیں. اللہ کی قسم یہ حسین.ع. نہیں بلکہ انکی صورت میں گویا خود رسول خدا.ص. میدان میں جارہے ہیں. نانا کا عمامہ سر پر سجائے بابا کی تلوار گردن میں حمایل کیے ماں فاطمہ الزہراء.ع. کی رومال گردن میں لپیٹے حسن مجتبی.ع کی ڈہال ہاتہوں میں لیے پنجتن کی مجسم تصویر بنے سوکہی زبان کیساتہ کمر کو خم کیے داییں باییں گنج شہداء میں اصحاب و انصار کی لاشوں سے گذر کر غم و اندوہ کا کوہ عظیم و گراں سینہ اقدس میں سموئے ہویے جب حسین ابن علی خیمہ گاہ سے نکلے تو ذرا تصور کرو کہ قلب زینب کبری.ع پر کیا گذری ہوگی ؟؟


" واللہ کہ اے حسین کارے کردی "انا للہ وانا الیہ راجعون. ولا حول ولا قوہ الا باللہ العلی العظیم

No comments:

Post a Comment