Sunday, 16 February 2014

فقہاء کے لئے تین عہدے بیان ہوئے ہیں:

شیعہ فقہا کی اکثریت کی رائے ہے کہ کہ روایات و احادیث میں معصومین علیہم السلام کی طرف سے فقہاء کے لئے تین عہدے بیان ہوئے ہیں:
1۔ افتاء (فتوی دینا)
2۔ قضاء (قاضی کی حیثیت سے فیصلے کرنا)
3۔ منصب ولایت
1۔ منصب افتاء:یعنی ہر جامع الشرائط مجتہد دین کے فرعی موضوعات (فروع دین) اور استنباطی موضوعات میں ـ جن کی لوگوں کو ضرورت ہے ـ فتوی دے سکتا ہے۔ یہ منصب بغیر کسی رکاوٹ کے تمام فقہاء کے لئے ثابت ہے۔ اور ولایت فقیہ کے زمانے میں دوسرے فقہاء سے یہ ذمہ داری ساقط نہيں ہوتی کیونکہ مجتہد کو یہ حق حاصل نہيں ہے کہ وہ دوسرے کسی مجتہد کی تقلید کرے۔2۔ قضاء (قاضی کی حیثیت سے فیصلے کرنا):ہر جامع الشرائط مجتہد غیبت کے زمانے میں یہ حق رکھتا ہے کہ لوگوں کے درمیان تنازعات کو حل و فصل کرے اور بیِّنات و دلائل اور دوسرے متعینہ وسائل سے خدا کا حکم بیان کرے اور فیصلہ سنائے۔ جو حکم وہ سنائے گا اس کو توڑنا خود اس پر بھی اور متنازعہ فریقوں حتی کہ دوسرے فقہاء کے اوپر بھی حرام ہے اور اس کی پاسداری حتی دوسرے مجتہدین اور مراجع تقلید پر لازم و واجب ہے۔3۔ منصب ولایت:تیسرا منصب جو فقہاء کے لئے ثابت ہے، ولایت کا منصب ہے اور ولایت سے مراد حکومت اور ملک کا انتظام و انصرام سنبھالنے اور شرعی قوانین کے نفاذ سے عبارت ہے۔ یہ منصب بھی بطور عام تمام فقہاء کے لئے ثابت ہے؛ لیکن جب ان میں سے ایک فقیہ حکومت تشکیل دینے کے لئے اقدام کرے، تمام دوسرے فقہاء اس کی اطاعت کے پابند ہیں اور ایک فقیہ کی طرف سے حکومت اسلامی تشکیل پانے کے بعد دوسرے فقہاء کے لئے حکومت سے متعلقہ معاملات میں مداخلت اور ولی فقیہ کے لئے دشواریاں یا رکاوٹیں کھڑی کرنا جائز نہيں ہے۔ چنانچہ حکومت اسلامی تشکیل دینا اور ولایت فقیہ کا عہدہ سنبھالنا تمام فقہاء پر واجب ہے لیکن یہ واجب "واجب کفائی" ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ جب ان میں سے ایک اس مہم کو سر کرے اور حکومت تشکیل دے تو یہ ذمہ داری دوسرے فقہاء سے ساقط ہے۔(آیت اللہ العظمی عبداللہ جوادی آملی، کتاب "ولایت فقیہ، رہبری در اسلام" صفحہ 184 ـ 187)۔

No comments:

Post a Comment