Sunday, 16 February 2014

*ناد علی (ع) کی شرعی حیثیت*


ہمارے مذہب شیعہ امامیہ اثناعشریہ کا طرہ امتیاز ہی یہی ہے کہ اس میں قیاس ، مصالح ، مرسلہ اور استحسان وغیرہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے اس میں کچھ ہے وہ صرف اللہ کا کلام یعنی قرآن ہے اور سرکار محمد (ص) و آل محمد (ع) کا فرمان یعنی حدیث ہے اور اگر تشریح و تفسیر قرآن کے سلسلہ میں کوئی چیز سند ہے تو وہ انہی ذوات مقدسہ کا قول و فعل ہے اور اگر حجت ہے تو انہی کی تقریر اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ مایہ وھم خیال ہےامام صادق (ع) کا ارشاد مبارک اصول کافی میں ہے کہ جو چیزمحمد و آل محمد (ع) کے گھر سے نہ نکلے وہ باطل ہےلہٰٰذا ہر وہ ورد، تعویذ ، وظیفہ ، عمل اور ہر وہ عبادت جو محمد و آل محمد (ع) کے گھر سے نہ نکلے وہ باطل ہےمگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کچھ ایسی چیزیں رائج ہو گئی ہیں جن کا ثبوت معصومین (ع) سے ہمیں قطعا`` نہیں ملتا مگر عوام الناس یہ ہی سمجھتی ہے کہ یہ اذکار معصومین (ع) سے مروی ہیں اور انہی اذکار میں سے ایک ذکر "ناد علی (ع) " کے نام سے ہمارے درمیان رائج ہے . ہم آج مختصر تجزیہ اس پر پیش کریں گے کہ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے اور کیا معصومین (ع) سے ثابت بھی ہے کہ نہیںسب سے پہلی بات کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ امام علی (ع) اور دیگر آئمہ اطہار (ع) سے کا وسیلہ بنانا نہ صرف جائز بلکہ مستحب بھی ہے اور صحیح روایات سے ثابت بھی ہے مگر جہاں تک رہی بات ناد علی (ع) کی تو عوام الناس میں دو قسم کے ناد علی پائے جاتے ہیں جن کو کبیر اور صغیر کا نام دیا جاتا ہے . ناد علی (ع) کبیر جس کا ماخذ جنتری وغیرہ جیسی ضعیف کتب ہیں ، اس میں بغیر کسی سند سے مروی ہے اور کسی معصوم (ع) سے ثابت نہیں ہے . باقی رہا ناد علی (ع) صغیر کا ، تو اس کا تجزیہ ہم اس طرح کرتے ہیںاس معاملے میں پہلی روایت بحارالانور سے پیش کی جاتی ہے اور وہ اس طرح ہے
شارح دیوان سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ اس (احد والے) روز رسول اللہ (ص) کو ندا دی گئی
نَادِ عَلِيّاً مَظْهَرَ الْعَجَائِبِ
تَجِدْهُ عَوْناً لَكَ فِي النَّوَائِبِ
كُلُّ هَمٍّ وَ غَمٍّ سَيَنْجَلِي
بِوَلَايَتِكَ يَا عَلِيُّ يَا عَلِيُّ يَا عَلِیسب سے پہلے ہم اس کی سند دیکھتے ہیں . اب نامعلوم شارح دیوان کون صاحب ہیں کیونکہ دیوان کے شارح متعدد ہیں . ان کا مذہب کیا ہے کیونکہہ شیعہ و سنی شارحین نے دیوان منسوب امام علی (ع) کی شرحیں لکھی ہیں . ان کا علمی و تحقیقی مقام کیا ہے? نیز ان کی اس روایت کا مدرک و ماخذ کیا ہے? اور پھر اس کا سلسلہ سند کیا ہے ? یہ سب امور پردہ خفا میں موجود ہیںچنانچہ یہ روایت مولف کے مجہول اور سلسلہ سند کے مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہےمندرجہ بالا ، بحار کی روایت کے متعلق ، بحارالانوار کے محقق بیان کرتے ہیںآخری جملہ میں غربت پائی جاتی ہے اور سابقہ جملے سے کوئی میل نہیں رکھتا اور بظاھر یہ جہلاء یا گمراہ صوفیوں کا اضافہ لگتا ہے جن کا دعویٰٰ ہے کہ یہ جملے دعا ہیں اور ایسی وجہ انھوں نے ان کو ذکر کیا ہے اور اس طرح کے بہت سے اضافے انھوں نے کئے ہیں جبکہ ان کے معنیٰٰ سے غافل ہیں . اللہ تعالیٰٰ بدعت اور خواہشات کی اتباع سے محفوظ رکھےبحارالانوار // ج 20 // ص 73// طبع بیروتمندرجہ بالا روایت میں درایتہ`` بھی غورو فکر کیا جائے تو معلوم ہو سکتا ہے کہ یہاں امام علی (ع) کو ندا دینا کوئی معنیٰٰ نہیں رکھتا کیونکہ ندا تو اسے دی جاتی ہے جو پہلے موجود نہ ہو مگر تاریخ گواہ ہے کہ جنگ احد میں امیر المومنین (ع) از ابتدا و انتہا موجود تھے حتیٰٰ کہ جب مشہور اصحاب رسول (ع) ، رسول اللہ (ص) کو چھوڑ کر بھاگ گئے تو تن تنہا امام علی (ع) ہی تھے جو ڈٹ کر اسلام اور رسول اسلام (ع) کی جان کا حفاظت کا فریضہ انجام دے رہے تھےاور کفار کا مقابلہ کرتے رہےاور اگر بالفرض اس ناد علی (ع) کا شان نزول جنگ خیبر میں تسلیم کر لیا جائے تو جب یہی خرابی لازم آتی ہے کیونکہ تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ خیبر میں بھی جناب امیر (ع) رسول اللہ (ص) کے ہمراہ تھے ، مدینہ میں نہ تھے سوائے غزوہ تبوک کے رسول اللہ (ص) نے امام علی (ع) کو مدینہ نہیں چھوڑا بلکہ ہمیشہ ہر غزوہ میں رسول اللہ (ص) کے ہمرکاب ہوتے تھےاسی طرح جو لوگ مستدرک الوسائل کا حوالہ دیتے ہیں ان کو چاہیئے کہ وہ معصوم (ع) سے اس کی صحت ثابت کریں کیونکہ مستدرک میں معصوم (ع) سے روایت نہیں لی گئی صرف یہ لکھا ہےوَ رَأَيْتُ بِخَطِّ الشَّهِيدِ رَحِمَهُ اللَّهُ ذَكَرَ لِرَدِّ الضَّائِعِ وَ الْآبِقِ تَكْرَارَ هَذَيْنِ الْبَيْتَيْنِاب اس میں کہاں پر قول معصوم (ع) ہے ،ناد علی (ع)کے حوالے سے نہ کوئی حدیث رسول اور نہ ہی کسی امام معصوم (ع) کا کوئی ارشاد ہماری کتب میں موجود ہےفقہاء امامیہ سے اس بارے میں استفتاء کیا گیا تو انھوں نے بھی یہی کہا کہ رجاء مطلوبیت کی نیت سے بطور وسیلہ پڑھ سکتے ہیں یعنی فقہاء نے رجاء کی قید اس لئے لگائی ہے کیونکہ ناد علی معصوم سے ثابت نہیں ہے . چنانچہ مومنین رجاء کی نیت اور وسیلہ کی نیت سے پڑھ سکتے ہیں مگر ساتھ میں یہ ذھن نشین رہے کہ معصوم (ع) سے ثابت نہیں ہے . اگر کوئی اس کو معصوم (ع) کی طرف نسبت دے گا تو خطا کار ہوگا.

No comments:

Post a Comment