Sunday, 16 February 2014

امام زین العابدین کی عظمت کا عظیم واقعہ جسکو محدثین اھل سنت نے نقل کیا

عبد الملک بن مروان کے دور خلافت میں حشام بن عبد الملک بن مروان حج کے موقعہ پر تشریف لایا وہاں پے اس نے ایک عجیب منظر دیکھا کے لوگ حجر اسود کو بوسا دے رہے ہیں اور جیسے ہی ایک شخص آیا تو لوگ انکی عظمت کی خاطر اس شخص کے لیے راستہ بنانے لگے اور اس شخص کو پورا راستہ فراہم کیا تاکہ وہ شخص آرام سے حجر اسود کی زیارت اور اسکو بوسہ دے سکے اس کے بعد اس شخص نے آرام سے آکے حجر اسود کو بوسے دیے اور جب وہ شخص حجر اسود کو بوسے دکے کر واپس جاتا ہے تو حشام حجر اسود کو بوسا دینے کے لیے آگے بڑھتا ہے تو لوگوں کا حجوم ہوجاتا ہے اور لوگ حشام کو جگہ نہیں دیتے اور حشام حجر اسود کو بوسہ نہیں دے پاتا۔ حشام بن عبد الملک ایک شخص سے پوچھتا ہے کے آخر یہ کون شخص ہے کے جس کے لیے لوگوں نے راستہ بنایا اور میں بادشاہ کا بیٹا ہوں اور مجھے وہ عزت و عظمت نہیں ملی جو اس شخص کو ملی اور لوگوں نے اس کے لیے راستہ دیا۔ جس شخص سے حشام نے پوچھا وہ دراصل فرضدق ( جو عظیم شاعر اھلبیت تھا) تھا وہ عظیم شخصیت جس کے لیے لوگوں نے راستہ بنایا وہ دراصل امام زین العابدین عہ تھے اور فرضدق نے حشام کے سامنے امام عہ کا تعارف بھترین اشعار میں کرایا۔ جو اس طرح ہے

اشعار کیونکہ عربی میں ہیں تو صرف انکا اردو ترجمہ نقل کردیتا ہوں۔ فرضدق نے حشام سے کہا کے میں بتادیتا ہوں کے یہ کون ہے فرضدق کہتا ہے " کے صرف اسکو انسان نہیں جانتے بلکہ حرم اور حرم کے باہر کی زمین انکے نقوش اور قدموں کو پہچانتی ہے، یہ اسکا بیٹا ہے جو تمام خلائق میں سب سے افضل ہے اور یہ پاکیزہ ہے اور طاھر ہے اور بلند علم والا ہے۔ جب کوئی قریش انکو دیکھتا ہے تو یہ کہتا ہے بی اختیار کے مقام اخلاق میں ان سے بلند تر کوئی نہیں"۔

آخری مصرع جو اس کے اشعار کے ہیں وہ بڑے کمال کے ہیں۔ فرضدق حشام کو کہتا ہے "اگر رکن حطیم کو معلوم ہوجائے کے کون ہستی اسکو بوسا دینے کے لیے آرہی ہے تو حطیم خود امام کے پیروں میں آکے انکے قدموں کے بوسے دے۔۔ جب بھی گفتگو کرتے ہیں مسکراہٹ کے ساتھہ کرتے ہیں، یہ ابن فاطمہ زھرا عہ ہے اے حشام اگر تو جاھل ہے تو سن لے کے ان کے جد پر اللہ نے نبوت کو ختم کیا ہے"۔

اس واقعہ کو ابن سعد اپنی کتاب طبقات الکبری میں امام حسین عہ کے واقعات میں نقل کیا ہے اور امام ذھبی نے بھی اپنی کتاب سیر الاعلام النبلا میں امام حسین عہ کے واقعات میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔

No comments:

Post a Comment